ہے مری ذات اک زیاں کی دکاں
ہے مری ذات اک زیاں کی دکاں
مجھ کو اپنا حساب کیا معلوم
جب مجھے بھی نہیں کوئی احساس
تم کو میرا عذاب کیا معلوم
ہر کسی سے بچھڑ گیا ہوں میں
کون دل میں میرا ملال رکھے
شہر ہستی کا اجنبی ہوں میں
کون آخر مرا خیال رکھے
کوئی بھی مجھ کو آسرا نہ ملا
میں بھٹکتا رہا ہوں شہروں میں
زندگی تشنگی کا دریا ہے
ہے فقط گرد دل کی لہروں میں
وصل کے سلسلے تو کیا اب تو
ہجر کے سلسے ہیں بے معنی
کوئی رشتہ ہی جب کسی سے نہیں
دل کے سارے گلے ہیں بے معنیٰ
جون ایلیا